ذہن پر اس طرØ+ سے چھائے ہو
گاہ پیکر ہو گاہ سائے ہو

بھول جانے کی آرزو کی ہے
اور شدت سے یاد آئے ہو

یوں بھی ہونے لگا جنوں میں کبھی
میرے ہونٹوں سے مسکرائے ہو

کس طرØ+ میں تمہیں چھپا رکھوں
تم مری روØ+ میں سمائے ہو

کیسے مانوں کہ تم نہیں میرے
کیسے کہہ دوں کہ تم پرائے ہو

میں سمندر کے پار کیا آؤں
تم تو اک ساØ+Ù„ÛŒ سرائے ہو
Ù+Ù+Ù+